* یہ تیرے عشق نے پنہچادیا کہاں مجھ ک *
انحراف ادبی فورم کے فی البدیہہ طرحی مشاعرہ میں پیش کردہ غزل:
یہ تیرے عشق نے پنہچادیا کہاں مجھ کو
کہ خود پہ ہونے لگا ہے ترا گماں مجھ کو
یہی ہے منزلِ مقصود کا نشاں مجھ کو
مرا نصیب ملا تیرا آستاں مجھ کو
کسی کی مست نگاہی نے مست کرڈالا
نہ فکرِ سود نہ اندیشہء زیاں مجھ کو
اسی کے ہورہیں اک بار جس کے ہوجائیں
بہت عزیز ہے یہ طبعِ عاشقاں مجھ کو
مجھے تلاش ہے اک ایسے راہبر کی کہ جو
مکاں سے لے کے چلے سوئے لامکاں مجھ کو
میں کاروان میں ہوں میرِ کارواں تو نہیں
یہ کس امید پہ تکتا ہے کارواں مجھ کو
عجب اڑان تھی جو خود سے کرگئی بے خود
اب اجنبی سا لگے اپنا آشیاں مجھ کو
میں آپ اپنی ہی گمنامیوں پہ حیراں ہوں
سنا رہا ہے کوئی میری داستاں مجھ کو
گذرتے وقت کے سانچے میں ڈھل رہا ہوں میں
کچھ اور سخت بناتی ہیں سختیاں مجھ کو
ہے میری پشت پناہی پہ آسماں والا
نہ جانے تنہا کوئی زیرِ آسماں مجھ کو
بچی ہوئی ہیں جو سانسیں وہ کس کے نام کروں
ستا رہی ہے بہت عمرِ رائیگاں مجھ کو
جو بات کہنی ہو کہہ دو کہ سن رہا ہوں میں
میں آج ساتھ ہوں ڈھونڈوگے کل کہاں مجھ کو
گدازِ قلب میسّر یونہی نہیں عارفؔ
’’بطورِ خاص ملا سوزِ جاوداں مجھ کو‘‘
**** |