* بھلا ہے یا برا دیکھا نہ جائے *
بھلا ہے یا برا دیکھا نہ جائے
مقدر کا لکھا دیکھا نہ جائے
جو چھوڑ آئے پلٹ کر دیکھنا کیا
جو پیچھے رہ گیا دیکھا نہ جائے
خدا کے نام ہے جب کشتیء دل
کوئی پھر ناخدا دیکھا نہ جائے
کسی کا قول دے جب رہنمائی
تو پھر کس نے کہا دیکھا نہ جائے
طلوعِ شمس ہے نظروں میں اب تک
یہ منظر شام کا دیکھا نہ جائے
الٰہی میں وہاں ہرگز نہ پنہچوں
جہاں اپنے سوا دیکھا نہ جائے
کریں تنقید اوروں کے عمل پر
یہ کیا‘ اپنا کیا دیکھا نہ جائے؟
نہ دیکھیں دیکھنا ہی گر نہیں ہے
نگاہیں پھیرنا دیکھا نہ جائے
اگر پاسِ محبت ہے تو عارفؔ
وفا ہے یا جفا دیکھا نہ جائے
سید وحید القادری عارفؔ
|