* فنا کے تیر ہوا کے پروں میں رکھے ہیں *
غزل
فنا کے تیر ہوا کے پروں میں رکھے ہیں
کہ ہم گھروں کی جگہ مقبروں میں رکھے ہیں
ہمارے پائوں سے لپٹا ہے خواہشوں کا سفر
ہمارے سر ہیں کہ بس خنجروں میں رکھے ہیں
ہمارے عہد کا انجام دیکھئے کیا ہو
ہم آئینے ہیں مگر پتھروں میں رکھے ہیں
بجھا گیا ہے کوئی یوں چراغ آنکھوں کے
خزاں کے پھول ہی اب منظروں میں رکھے ہیں
اے زندگی نہ گزرنا ہماری گلیوں سے
ابھی ہمارے جنازے گھروں میں رکھے ہیں
جواز کیا دیں عدالت کو بے گناہی کا
ہمارے فیصلے دانشوروں میں رکھے ہیں
ہمارے سر پہ حقائق کی دھوپ ہے نسرین
حسین خواب تو بس چادروں میں رکھے ہیں
سیدہ نسرین نقاش
Sada International
Post Box No. 849
G.P.O, Sri Nagar
(Kashmir)
Mob: 9596045887
s_i_kashani@yahoo.com
بہ شکریہ جانِ غزل مرتب مشتاق دربھنگوی
+++
|