* یہ دہشت گرد جو لپٹے ہیں *
یہ دہشت گرد جو لپٹے ہیں
مردہ مائوں کے سینے سے
اب دور کرو سنگینیوں سے
یہ بے حس بیوہ چھاتی پہ
دو خون اگلتی آنکھیں ہیں
اور لرزاں لرزاں ہونٹوں پہ
اک دودھ کا باسی قطرہ ہے
یہ مستقبل کا خطرہ ہے
لو غور کرو یہ ابھی ابھی
ملبے میں دبی
اک چیخ اس دہشت گردی کی ہے
جو تھام کے انگلی بابا کی
چلنے کی کوشش کرتا تھا
یہ پھول بھی کتنا نازک تھا
جو تتلی سے بھی ڈرتا تھا
کس دہشت گرد کا لاشا ہے
یہ اک مکتب کے رستے میں
اس دہشت گرد کے بستے میں
سامان دہشت گردی ہے
کچھ کاغذ اور کچھ کتابیں ہیں
اک پنسل ہے، اک ٹافی ہے، کچھ بسکٹ ہیں
بوتل میں ٹھنڈا پانی ہے
اور پل میں ختم کہانی ہے
دھرتی کے خدائو بتلائو
کیوں، ہنستے بستے گلشن میں
بارود کی بارش کرتے ہو
کیا آنسو دہشت گردی ہے
تم کہتے ہو
اس جبر اور ہو کے عالم میں
کچھ کہنا دہشت گردی ہے
ہم کہتے ہیں
اس عالم میں چپ رہنا دہشت گردی ہے
٭٭٭
|