* برداشت دردِ عشق کی دشوار ہو گئی *
برداشت دردِ عشق کی دشوار ہو گئی
اب زندگی بھی جان کا آزار ہو گئی
ہے وجہِ انبساط محبت میں اعتدال
جب حد سے بڑھ گئی رسن و دار ہو گئی
خود داریٔ جنوں نے نہ جانے دیاوہاں
کمبخت راہِ دوست میں دیوار ہو گئی
افت ہے راز راز کی حد تک ہی سرفراز
جب داستانِ بزم بنی خوار ہو گئی
اُس بزم خاص میں تھا کبھی عشق باریاب
بے امتیازیوں سے آج جو بازار ہو گئی
اُف وہ نظر کہ سب کے لئے دل نواز ہے
میری طرف اٹھی ہے تو تلوار ہو گئی
جنس ہنر مذاق خریدار دیکھ کر
خود بے نیازِ چشم خریدار ہو گئی
٭٭٭
|