* روحِ فن جسمِ تغزل سے نکل جائے گی *
غزل
روحِ فن جسمِ تغزل سے نکل جائے گی
اشک اتنا نہ پیو شاعری جل جائے گی
یہ قلم رب کی امانت ہے سنبھل کر لکھئے
آپ پھسلے تو نئی نسل پھسل جائے گی
خون شریانوں میں کچھ اور سلگ جانے دو
خود بخود آہنی زنجیر پگھل جائے گی
اپنے گائوں میں نئی روشنی آتے آتے
یہ زمیں ایک صدی اور نگل جائے گی
کچھ نہ بدلے گا حکومت کے بدل جانے سے
صرف تلوار سے تلوار بدل جائے گی
اب تو دکھ سہنے کی عادت سی ہوئی جاتی ہے
دن گزار آئے ہیں ، یہ رات بھی ڈھل جائے گی
جھوٹ کی بھیڑ میں سچ بول رہا ہوں طالب
مجھ کو معلوم ہے آواز کچل جائے گی
طالب درویشی
18, Sagar Dutta Ghat Road, Kamarhatti
Kolkata-700058
Mob: 8013490090
بشکریہ ’’میر بھی ہم بھی‘‘ مرتب: مشتاق دربھنگوی
………………………
|