غزل
(تنویر پھول)
خزاں نے کہا یہ ، بہار آ نہ جائے
دل مضطرب کو قرار آ نہ جائے
نہ یوں میٹھی میٹھی نگاہوں سے دیکھو
ہمیں پیار دیوانہ وار آ نہ جائے
یہ جشن طرب ہے ، یہاں سخت پہرے
اچانک کوئی دل فگار آ نہ جائے
وطن کی محبت میں محصور ہے جو
کہیں وہ غریب الدیار آ نہ جائے
وڈیروں کو ہے فکر ، ہاری کی کشتی
تلاطم سے غربت کے،پار آ نہ جائے
نگاہوں میں فرد عمل اپنی رکھو
اچانک وہ روزشمار آ نہ جائے
کہا پھول نے ، گل سے بھرلیں وہ دامن
کہیں ان کے دامن میں خار آ نہ جائے
۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸