* دل میں بستے ہیں مگر دور رہا کرتے ہی *
غزل
دل میں بستے ہیں مگر دور رہا کرتے ہیں
وادیٔ خواب میں ہم اُن سے ملا کرتے ہیں
لوگ کچھ ایسے ہیں فطرت سے ہیں اپنی مجبور
جانے کس بات پہ ہنگامہ بپا کرتے ہیں
جس کا شیوہ ہی حسد اور تکبر ٹھہرا
اپنی ہی آگ میں ہردم وہ جلا کرتے ہیں
اہلِ کوفہ کی طرح اب ہوا اندازِ وفا
’’ان سے اللہ بچائے جو وفا کرتے ہیں‘‘
بیچ نظروں میں ہیں برسات کے کالے بادل
ہم تو نظارۂ گیسوئے دوتا کرتے ہیں
نفرت و بغض و تعصب کو ہوا مت دینا
آگ بونے سے تو شعلے ہی اُگا کرتے ہیں
درگزر وہ نہ کرے تو ہو گزارا کیسے
پھول! ہم لوگ تو دن رات خطا کرتے ہیں
تنویر پھول
149, Milner Avenue, Albany
New York 12208 (U.S.A)
Email: tanwirphool@gmail.com
Mob: 001 518 894 1095
بشکریہ مشتاق دربھنگوی
………………………
|