* چرچا ہے بہت جس کا یہاں نام بہت ہے *
غزل
٭………طارق متین
چرچا ہے بہت جس کا یہاں نام بہت ہے
درپردہ وہی شخص خوں آشام بہت ہے
اتنا ہی تیرے قرب کا ہنگام بہت ہے
اک شام جو مل جائے وہی شام بہت ہے
کافی ہے بہلنے کو تری یاد کی دولت
اے راحتِ دل تیرا یہ انعام بہت ہے
ہر موڑ پہ دھوکا ہے یہاں کیسے بسر ہو
یہ دہر پُراز کلفت و آلام بہت ہے
دو گھونٹ سے کیا ہوگا ابھی اور پلاتو
اے پیر مغاں، تلخیٔ ایاّم بہت ہے
بس تھوڑی سی مہلت تو مجھے اور عطا کر
ہاں اے ملک الموت ابھی کام بہت ہے
کچھ بات یقینا ہے تری ذات میں طارقؔ
اس شہر میں آیا ہے تو کہرام بہت ہے
٭٭٭٭
|