* کچھ روز سے مرا بھی نہیں ہے اتا پتا *
غزل
کچھ روز سے مرا بھی نہیں ہے اتا پتا
اس پر یہ اتفاق کہ وہ بھی ہے لا پتا
جا لوں میں اس کو چشم زدن میں جو چل پڑوں
میں پوچھ لوں تو اس کا بتادے ہوا پتا
یہ فصلِ گل ہے موسمِ وحشت ہے اس لئے
کب کیسے کتنا کون کہاں کس کو کیا پتا؟
چھائی ہوئی ہے اب بھی فضاؤں میں نغمگی
گزرا ہے کوئی نام تمہارا الاپتا
لفظوں کا وہ بدن نہ تغزل کا پیرہن
کوئی مدیر کیوں مری غزلوں کو چھاپتا
اب’’حسن ڈاٹ کام‘‘پہ ہیں دستیاب آپ
ہر بوالہوس کی جیب میں ہے آپ کا پتا
تسلیم نیازی
|