* اِس کے ہر اک فراز سے لیکر نشیب تک *
اِس کے ہر اک فراز سے لیکر نشیب تک
میں نے تو اُس کو سونپ دیا ہے نصیب تک
بیمار آپ ہی کا ہوں کچھ کیجئے حضور
حتیٰ کہ یہ معاملہ پنہچے طبیب تک
یوںکرکے میرے حال پہ اعلانِ التفات
رہنے دیا نہ آپ نے مجھکو غریب تک
دل سے نکل سکی نہ کسی پل تری ہوس
پہنچا نہ یہ اسیرِ’’غزہ‘‘ ’’تل ابیب‘‘ تک
تسلیمؔ ہم کہاں ہیں کہ ہر راہِ لطف و مہر
دستِ حبیب سے ہے دہانِ رقیب تک
**** |