* ہوجائے نہ غالب کہیں امکان پہ شک بھ *
ہوجائے نہ غالب کہیں امکان پہ شک بھیج
جھوٹی ہی سہی دل کو تسلّی کی کمک بھیج
تنہائی کے جوزخم ہیں مرجھانے لگے ہیں
پھر کوئی نیا عذر باندازِ نمک بھیج
چھایا ہے تن و جان پہ سناٹا عجب سا
غم بھیج، الم بھیج، چبھن بھیج، کسک بھیج
دل ہے کہ ترا قصد بھی کرنے سے ہے عاری
ضد بھیج، جنوں بھیج ،ہوس بھیج، للک بھیج
آنکھوں نے کئی روز سے کھایا نہیں کچھ بھی
دوچار عدد تارے اور اک مشت فلک بھیج
’’مسکال‘‘ سے ہی کام چلاتا ہوں میں اکثر
گل پھینکتے ڈرتا ہوں سو دیتا ہوں مہک بھیج
**** |