* شعلہ رکھ کر سامنے شعلہ نما ہوتی گی *
شعلہ رکھ کر سامنے شعلہ نما ہوتی گیی
تجھ کو جب پایا تو پھر میں کیا سے کیا ہوتی گیی
رہبروں کے واسطے بھی راہنما ہوتی گیی
خار پر میں لیٹ کر اک راستہ ہوتی گیی
ایک آواز -مسلسل تھی تعاقب میں مرے
شور کے جنگل میں گم پھر یہ صدا ہوتی گیی
امتحاں در امتحاں در امتحاں تھی زندگی
آزمائش کی بھی پھر تو انتہا ہوتی گیی
چھت ٹپکنے سے بھی کچھ بیزار ہم ہوتے گیی
آج بارش پھر کرم کی بے بھا ہوتی گیی
ہاتھ میں کچھ تھا نہیں میں بے ہنر بیکار تھی
بے بسی کے دور میں بس سیخ پا ہوتی گیی
مجھ کو اپنی بے کسی پر اور رونا آ گیا
کہ نوازش کی تری جب انتہا ہوتی گیی
وہ بھی تھا مصروف اپنے روزگار -غم میں خود
رفتہ رفتہ میں بھی اس سے کچھ خفا ہوتی گیی
عیب بھی خوبی لگے کچھ خود پسندی میں مجھے
میں سر -آینہ جا کر خود نما ہوتی گیی
****** |