* اس سراپا رحمت و شفقت پہ ہوں لاکھوں *
اس سراپا رحمت و شفقت پہ ہوں لاکھوں سلام
جس کی برکت سے ہی ہوتے ہیں ہمارے سارے کام
کس قدر میرے خدا نے کر دیا ہم پر انعام
کہ ہوے ہم ہیں محمّد کے غلاموں کے غلام
عشق ہے میری عبادت عشق میرا احترام
عشق کی اس بے کلی سے ہے مری جاں کو مدام
ہے شراب -عشق کی جس کو طلب مجبور ہے
ساقیا مے خوار کو کافی نہیں بس ایک جام
خود کلامی میری خوبی ہے نہیں ہے میرا نقص
خود کو پہچانا ہے جب سے ہو گیے ہیں خود کلام
رازی و سینا کو گزرے تو زمانہ ہو چلا
کہ یہاں پیدا ہوا ہے آج پھر عبدسسلام
آدمیّت آدمی کے ہی سبب بدنام ہے
رو رہا لبنان ہے اور جل چکا ہے ویتنام
چند ذروں کو ملا کر ساری دنیا کی تباہ
رکھ دیا ایٹم جہاں پر آگ برسانے کا نام
سید بھی چالاک تھا آیا نہ اس کی چال میں
آ گیا صیاد ہے پھر آج خود ہی زیر -دام
اے غم -دل جشن کی تیاریاں کر لے کہ اب
شوق کی منزل میں باقی رہ گیا ہے ایک گام
آج بھی بے کل رہے سب غنچہ و گل اور چمن
آج بھی باد-صبا لائ نہیں کوئی پیام
ایک گوشے میں چھپی بے زار دنیا سے تھی میں
پر خوشا مجھ کو نظر پھر آ گیا وہ خوش خرام
دن میں تو مضطر رہی انجم کہ کب نکلے گا چاند
بے قراری میں ہی گزری آج بھی پھر میری شام
****** |