* لوگ سب مرتے رہے اور بس مزار ہوتے رہ& *
لوگ سب مرتے رہے اور بس مزار ہوتے رہے
ہم اکیلے رہ گیے اور اشکبار ہوتے رہے
ہم تو اس دنیا میں رہ کر عیب دار ہوتے رہے
اور اس ہستی کے آگے شرمسار ہوتے رہے
راہ کے پتھر بھی زیادہ نوکدار ہوتے رہے
آبلے پاؤں کے بھی کچھ رازدار ہوتے رہے
سامنے دریا تھا پر پیاسے کے پیاسے ہی تھے ہم
تشنگی حد سے بڑھی تو ریگزار ہوتے رہے
اک سے اک بڑھ کر ملا ظالم زمانے میں ہمیں
ہاں مگر اتنا ہوا کہ پایئدار ہوتے رہے
آگہی کے معاملے کو ہم نے یوں حل کر دیا
آئینے کے سامنے ہم آشکار ہوتے رہے
چالاک دنیا ہم نے جانے سب ترے مکر و فریب
تیری مکّاری سے ہم بھی ہوشیار ہوتے رہے
تم کو ہم نے سونپ ڈالا آپ اپنے آپ کو
دن بدن تم اور بھی بااختیار ہوتے رہے
وہ کنارے آ لگے بس اک خدا کی آس پر
کاغذوں کی کشتیوں پر جو سوار ہوتے رہے
ہم نے اپنی ذات کو تھا کیوں مٹایا اس طرح
دھول قدموں کی بنے اور بس غبار ہوتے رہے
غم نہ کر انجم کہ تنہا رہ کے بھی تنہا نہیں
بزم میں ہم بھی ستاروں کی شمار ہوتے رہے
******* |