* اب ترا اعتبار کیا کرنا *
اب ترا اعتبار کیا کرنا
تجھ پہ غم آشکار کیا کرنا
خود پرستی نہیں مرا شیوہ
میں نے متی سے پیار کیا کرنا
چاک پہ ڈال دے کہ بن جاؤں
تو نے مشت-غبار کیا کرنا
دور اپنوں نے بے رخی سے کیا
غیر پر انحصار کیا کرنا
جس کی آنکھوں میں اجنبیّت ہے
اس سے پھر آنکھ چار کیا کرنا
جب نہیں کوئی دیکھنے والا
میں نے سولہ سنگھار کیا کرنا
گوری کانٹوں پہ ننگے پاؤں چل
بے وفا کا کہار کیا کرنا
رات کٹ جاے گی دعاؤں میں
زخم دل کے شمار کیا کرنا
تم نے تہذیب ہی بھلا دی گر
تم سے پھر تو تکار کیا کرنا
نام اس کو جہاد کا مت دو
ایک بےبس پہ وار کیا کرنا
خوشنما خوشنوا پرندے ہیں
ان کا ظلم شکار کیا کرنا
مجھ کو انجم زمین کھینچتی ہے
میں نے اپنا مدار کیا کرنا ؟؟؟؟
****** |