* قبول مجھ کو کبھی بھی جو جگ ہنسائی ن *
قبول مجھ کو کبھی بھی جو جگ ہنسائی نہ تھی
تو بات راز کی میں نے کبھی بتائی نہ تھی
میں اتنی بھیڑ میں گم تھی نہ کچھ نظر آیا
مجھے صلیب مری اس گھڑی دکھائی نہ دی
مجھے تھا خون کے آنسو رلا گیا وہ شخص
تھی صبر و جبر کی وہ انتہا ،دہائی نہ دی
میں ناصحوں سے متاثر نہ ہو سکی کیونکہ
مجھے تو بات کوئی ان کی تب سنائی نہ دی
نجانے کیسا تعلق تھا آج سوچتی ہوں
وہ اجنبی بھی نہیں تھا اور آشنائی نہ تھی
بس ایک بات سے سب فاصلے ہوے پیدا
تھا اس میں اور تو سب کچھ پہ پارسائی نہ تھی
وہ دوریاں تھیں مقدّر میں مل سکے نہ ہم
قریب تر تھا وہ دل سے مگر رسائی نہ تھی
ہر ایک شام سے وحشت سی ہو رہی ہے مجھے
کوئی بھی شام ترے ساتھ جو بتائی نہ تھی
میں اس میں گم تھی کچھ اس طرح کہ لگا مجھ کو
قرین تھا دل سے جدائی میں بھی جدائی نہ تھی
تمہاری یادوں کے اب تو چراغ جلتے ہیں
پہ شام-ہجر کبھی ہم نے یوں بتائی نہ تھی
میں آج خوش ہوں بہت تجھ کو سوچ کر انجم
کبھی بھی ایسے تو پہلے میں مسکرائی نہ تھیLike ·
******* |