* قاتل کے ہاتھ خون سے رنگین ہو گیے *
قاتل کے ہاتھ خون سے رنگین ہو گیے
مجرم ہمارے اور بھی سنگین ہو گیے
ہم تو نبھا رہے تھے رسول خدا کی بات
ہم علم پڑھنے کیا گیے خود چین ہو گیے
ہم بادشاہ وقت تھے خود چین سے رہے
جب شہر جل رہا تھا تو ہم بین ہو گئے
جب سے بندھی ہے ایک پرندے سے دوستی
ایسے ارے کہ آج تو شاہین ہو گیے
تم کہ رہے ہو غار میں بس صرف دو وہ تھے
میں کہ رہی ہوں کہ وھی تو تین ہو گیے
دل پر لگا رہے ہیں جو ہم دوستوں کی بات
تحسین کے دو حرف تو توہین ہو گئے
انجم بھا رہے تھے جو آنسو زمین پر
پانی تمہارے شہر کے نمکین ہو گیے
****** |