* غریب - شہر ترستا ہے روشنی کے لیے *
غریب - شہر ترستا ہے روشنی کے لیے
وہ زندگی سے ہی لڑتا ہے زندگی کے لیے
یہ بچے پھول سے کملا کے رہ گئے ہیں سبھی
کہ صاف پانی مہیا نہیں کسی کے لیے
یہ جس سے دارو دوا کی تو بات کرتا ہے
اسے تو میٹھا میسر نہیں خوشی کے لیے
دیے میں دیکھ رہی ہوں تو بس مزاروں پر
کوئی جلا ہے دیا بھی نہ جھونپڑی کے لیے
خود اپنے آپ سے فرصت نہیں کسی کو یہاں
نہیں ہے کوئی بھی اب بندہ پروری کے لیے
مری زمین پہ یہ ہو رہا ہے کیا ایسا
کچل رہے ہیں سروں کو یہ برتری کے لیے
مفاد اپنا ہی مد-نظر نہ ہو تجھ کو
جو سوچنا ہے تو پھر سوچ ہر کسی کے لیے
تری ریاضتیں کافی نہیں ہیں میری جاں
بہت ہیں کر -و-بیاں اس کی بندگی کے لیے
ہر ایک دل کی ہی دھڑکن سنائی دیتی ہے
کہ میرا دل تو دھڑکتا ہے ہر کسی کے لیے
اس گرانی کے عالم میں اتنی رقم کہاں
کہ زہر چاہیے بہتوں کو خود کشی کے لیے
امیر - شہر ! جو فرصت ملے چراغاں سے
تو تجھ پہ تف میں کہوں تیری بے حسی کے لیے
میں جل رہی ہوں جو راتوں کو جاگ کر انجم
تو سوچتی ہوں جہاں کی میں بہتری کے لیے
****** |