* نہ تھا نظر کے سامنے نہ تھا مرے بیان *
نہ تھا نظر کے سامنے نہ تھا مرے بیان میں
مگر میں امر بھر رہی ترے ہی بس دھیان میں
نگہ وہی بلند تھی جو تیرے در پہ تھی لگی
کہ شان اس کی ہی بڑھی مٹا جو تیری شان میں
زندگی ہے بس وہی کٹی جو چاہ میں تری
کہ روح تو نے پھونک دی تو جان آئ جان میں
عظیم تر ہے بس وہی ، عظیم تر ہے بس وہی
یہی ہے پہلی وہ صدا پڑی جو میرے کان میں
مرے خدا یہ کیا ہوا . ہے کیسی یہ ہوا چلی
بتوں میں قوم گھر گیئ ،رہا نہ دل اذان میں
نۓ طرح کا دور ہے کہ بس قلم کا زور ہے
سپاہ گری کو چھوڑ کے تو سیف رکھ میان میں
علم اٹھا لے امن کا ، صدا تو دے اے بے نوا
پیام دے سلامتی کا خود بھی ہو امان میں
انجم اپنی ذات میں تو بھی کچھ کلیم ہے
کہ دیکھ کس طرح کھلی گرہ تھی جو زبان میں
******* |