* وہ کہ رہے ہیں چشمہ -فیضاں نہیں رہا *
وہ کہ رہے ہیں چشمہ-فیضاں نہیں رہا
الہام کا بھی اب کوئی امکاں نہیں رہا
جب سے ملا ہے مرشد و رہبر خدا قسم
اب راستے میں وہ خم و پیچاں نہیں رہا
اک رسم رہ گیی ہے عبادت بھی اور بس
کوئی بھی اب تو صاحب-وجداں نہیں رہا
مردو انہیں لباس دو غیرت کے نام پر
ورنہ تو انقلاب کا امکاں نہیں رہا
برھنہ ہوئی ہیں وہ جدّت کے نام پر
سر پر حجاب ہاتھ میں قرآن نہیں رہا
بےشرم لڑکیوں نے ہیں برباد گھر کیے
شادی کے فرض کو کوئی ترساں نہیں رہا
کیوں زلزلوں نے ساری زمیں کو ہلا دیا
قہار بن گیا ہے وہ رحماں نہیں رہا
انجم نے ٹمٹماتے ہوے تاروں سے کہا
کیا اس زمیں پہ اب کوئی انساں نہیں رہا
|