* دوئی کے نقش کو دل سے اتارنا ہو گا *
دوئی کے نقش کو دل سے اتارنا ہو گا
اس آئینے میں ترا عکس ابھارنا ہو گا
نہیں ہے سہل ، قیامت جو میرے دل پہ ہے
کہ پل صراط سے دل کو گزارنا ہو گا
مدبّران وطن فیصلے سے ہیں قاصر
مشیر غیر کو پھر سے پکارنا ہو گا
تو اپنی ذات سے باہر نکل کے سوچ ذرا
تجھے بھی مٹی کا یہ قرض اتارنا ہو گا
تمہارے مدنظر ہو جہاد اکبر بس
خودی نہیں میری جاں، نفس مارنا ہو گا
جو بن رہا تو سقراط دور حاضر کا
تو پیالہ زہر کا منہ میں اتارنا ہو گا
تماش بینوں کی خواہش پہ سامنے آئین
تو پھر انھیں بھی تو خود کو سنوارنا ہو گا
تمہارے پیش نظر کیوںنہیںیہ ہم نفسو ؟
تمہیں بھی ملک عدم کو سدھارنا ہو گا
تمام لوگ مسیحا کے انتظار میں ہیں
کہ انجم اس کو زمیں پر اتارنا ہو گا
******* |