* میں زخم اگر ہوں تو دکھا کیوں نہیں د *
میں زخم اگر ہوں تو دکھا کیوں نہیں دیتے
بجھتے ہوے شعلوں کو ہوا کیوں نہیں دیتے
کم ظرف ہو تم درد سوا کیوں نہیں دیتے
بے درد ہو تم درد بڑھا کیوں نہیں دیتے
درماں ہے اگر درد تو کیا عذر تمہیں ہے
بیمار محبّت کو دوا کیوں نہیں دیتے
کیوں دار پہ اس روح کو مصلوب کرو تم
اس جسم کو سولی پہ چڑھا کیوں نہیں دیتے
اک جبر مسلسل ہے یہ ٹہرا ہا الزام
پابند سلاسل ہوں سزا کیوں نہیں دیتے ( گوانتاموبے کے قدیوں کے نام اور عافیہ کے نام )
کیوں دیتے ہو عورت کو نصیبوں کی سیاہی
ان ہاتھوں کو تم رنگ حنا کیوں نہیں دیتے
ناکام تمنا کی یہ سب اہل تمنا
حسرت کا کوئی" خون بہا " کیوں نہیں دیتے
تم شرک کے قائل نہیں گر عشق میں پیارے
پھر بت یہ حسینوں کے گرا کیوں نہیں دیتے
چپ چاپ سہے جاتے ہیں قدرت کے ستم ہم
اسرار مشیّت کو گلہ کیوں نہیں دیتے
******* |