* انسانیّت پہ ظلم خود انسان کر گئے *
انسانیّت پہ ظلم خود انسان کر گئے
باقی جو رہ گیا تھا وہ شیطان کر گئے
کچھ لوگ اپنی جان کیا قربان کر گئے
راہ وفا کو اور بھی آسان کر گئے
طاقت کے زور پہ وہ مرے گھر میں گھس گئے
بچوں کو کس قدر ہیں پریشان کر گئے
ہولی جو کھیلی خون سے میرے تو کیا ہوا
اپنے دھرم کا خود ہی وہ اتمان کر گئے
میرے غریب خانہ پہ وارد وہ کیا ہوے
پہلو میں میرے درد کا سامان کر گئے
میری زباں کو درد نے تاثیر بخش دی
روٹھے ہوے وہ آے تھے اور مان کر گئے
خون جگر میں ہم بھی ڈبوتے رہے قلم
اور بے خبر رہے کہ ہیں دیوان کر گنے
****** |