* دشت - جنوں میں تو کوئی دیوارودر نہ ہ *
دشت - جنوں میں تو کوئی دیوارودر نہ ہو
"شام آے اور دل کے لیے کوئی گھر نہ ہو
جینے کا گر سلیقہ نہ آے تو کیا جیے
حیف ایسی زندگی پہ کہ دست- ہنر نہ ہو
حسرت میں جی رہے ہیں کبھی اڑ نہ پائیں گے
ہم سا کوئی بھی طائربے بال و پر نہ ہو
مانگا ہے میں نے تجھ کو مقدّر سے آج پھر
اے کاش اب د عا یہ مری بے اثر نہ ہو
رونق کہاں سے آے گی پھر بزم میں بتا
محفل کی جان ہی جو اگر جلوہ گر نہ ہو
وحشت سکوں میں مجھے ایسی ہے ان دنوں
گردش میں میرا پاؤں ہے کیسے سفر نہ ہو
انجم تو بادلوں میں ہی چپ جا کہیں کہ اب
کیا لطف آسماں پہ عیاں گر قمر نہ ہو
******* |