* نظر کے خوف سے ضعفِ یقیں ایجاد ہوتا *
نظر کے خوف سے ضعفِ یقیں ایجاد ہوتا ہے
تفکر کا جہاں مطلق گماں آباد ہوتا ہے۔۔
خرد نے روح چیری تو مزاجِ زندگی بدلا
گھٹن سے میرا اندر اس طرح آزاد ہوتا ہے
پھڑکتی آنکھ سیّاروں کی گردش ماپ لیتی ہے
ستارہ جب نظر کے نور کا ہمزاد ہوتا ہے
سکندر خوابِ عظمت کی تپش سے جل گیا آخر
قمر خورشید کو چھو کر فقط برباد ہوتا ہے
زباں دانی نہیں آتی، جبھی اقرار ہے مجھ کو
تلفظ جس کا بھٹکے، صاحبِ ایجاد ہوتا ہے
مجھے اندیشہ[ئے] سودوزیاں میں قید کر ڈالا
مری نیت میں سوداگر، مرا صیاد ہوتا ہے
تماشا شیخ کا میں نے سرِ بزمِ لحد دیکھا
میں ہاروتی، وہ ماروتی۔ ۔ ۔ ۔ فلک نژاد ہوتا ہے
رموزِ زندگی کی مشق کرنے دے مجھے واعظ
طماچہ دہر کا سب سے بڑا استاد ہوتا ہے
مجھے درپیش ہے پھر معرکہ فکر و تخیل کا
مرا دشمن تفکر میں جہالت زاد ہوتا ہے
مرا لشکر ہے فکری، علم مرکز، میمنہ ہے جذب
تخیل میسرہ اندر ہمہ تعداد ہوتا ہے
عدد کی ظاہری قیمت خبر دینے سے قاصر ہے
کہ واحد جذب و مستی میں الف افراد ہوتا ہے
وحیداخترواحد
|