* قفس میں عمر گذری نالہ و آہ و فغاں کر *
قفس میں عمر گذری نالہ و آہ و فغاں کرتے
ہم آخر کس توقع پر خیال آشیاں کرتے
پتا ملتا نہیں جنسِ وفا کا اب زمانے میں
کہیں سے ہاتھ اگر لگتی تو نذرِ دوستاں کرتے
مزا آتا اگر گزری ہوئی باتوں کا افسانہ
کہیں سے ہم بیاں کرتے کہیں سے تم بیاں کرتے
نہ پروا کی ہماری کارواں نے جب تو پھر ہم بھی
بچھڑ کر کارواں سے کیا تلاش کارواں کرتے
٭٭٭
|