* شعلۂ تصور سے ہر دماغ جلتا ہے *
غزل
شعلۂ تصور سے ہر دماغ جلتا ہے
وقت کی مشینوں میں آدمی بھی ڈھلتا ہے
تمتماتا یہ سورج سرخیاں اگلتا ہے
رات کا لہو پی کر صبح کو نکلتا ہے
اے دلِ حزیں کوئی دوسری تمنا کر
روز اک کھلونے سے جی کہیں بہلتا ہے
پہلے بجلیوں کو میں آشیاں میں رکھتا تھا
اب تو جگنوئوں سے بھی دل مرا دہلتا ہے
کیوں بھلا شکن پڑتی حوصلوں کے ماتھے پر
ٹھوکریں تو کھاکر ہی آدمی سنبھلتا ہے
جس کے دل میں ہوتی ہے غم کی آگ اے وحشی
وہ غریب برگد کی چھائوں میں بھی جلتا ہے
وحشی ہوڑوی
Urdu ghar, C. Block, Fort Gloster
Baurea, Howrah
Mob: 9331729287 / 9883638972
بشکریہ ’’میر بھی ہم بھی‘‘ مرتب: مشتاق دربھنگوی
………………………
|