* غفلت میں وقت اپنا نہ کھو، ہشیار ہو *
غزل
٭……وَلی محمد ولیؔ
غفلت میں وقت اپنا نہ کھو، ہشیار ہو، ہوشیار ہو
کب تک رہے گا خواب میں، بیدار ہو بیدار ہو
گر دیکھنا ہے مدعا ، اس شاہدِ معنی کا رو
ظاہر پرستاں سوں سدا، بیزار ہو بیزار
جیوں چتر داغِ عشق کیوں رکھ سر پر اپنے اوّلاً
تب فوجِ اہل درد کا ، سردار ہو سردار ہو
وہ نو بہارِ عاشقاں، ہے جیوں سحر جگ میں عیاں
اے دیدہ وقتِ خواب تئیں، بیدار ہو بیدار ہو
مطلع کا مصرع اے ولیؔ وردِ زباں کر رات دن
غفلت میں وقت اپنا نہ کھو ہشیار ہو ہوشیارہو
|