غزلِ
مرزایاس یگانہ چنگیزی
مجھے دل کی خطا پر یاس شرمانا نہیں آتا
پَرایا جُرم اپنے نام لِکھوانا نہیں آتا
بُرا ہو پائے سرکش کا، کہ تھک جانا نہیں آتا
کبھی گمراہ ہوکر راہ پر آنا نہیں آتا
مجھے اے ناخدا، آخر کسی کو منہ دِکھانا ہے
بہانہ کر کے تنہا پار اُترجانا نہیں آتا
مُصیبت کا پہاڑ آخر کسی دن کٹ ہی جائے گا
مجھے سرمار کر تیشے سے مرجانا نہیں آتا
اسیرو، شوقِ آزادی مجھے بھی گدگداتا ہے
مگر چادر سے باہر پاؤں پھیلانا نہیں آتا
دلِ بے حوصلہ ہے اِک ذرا سی ٹھیس کا مہماں
وہ آنسو کیا پئے گا، جس کو غم کھانا نہیں آتا
سراپا راز ہوں، میں کیا بتاؤں کون ہوں، کیا ہوں
سمجھتا ہوں، مگر دنیا کو سمجھانا نہیں آتا
مرزا یاس یگانہ چنگیزی