* ھمارے درمیاں جو فاصلہ پڑا ہوا ہے *
ھمارے درمیاں جو فاصلہ پڑا ہوا ہے
نگاہِ قلب میں جالا سا کیا پڑا ہوا ہے
مرا ہی عکس مجھے راستوں میں دکھنے لگا
تہہِ سراب کویٔ آیٔنہ پڑا ہوا ہے
اُڑا رہا تھا مری چشمِ دور بیں کا مذاق
چراغِ راہ مرے زیرِ پا پڑا ہوا ہے
مرے زوال کا واحد سبب میں خود ہی تو ہوں
مرے گمان میں لیکن خدا پڑا ہوا ہے
گلوں میں کاغذی تالے یہاں پڑے ہوۓ ہیں
گھروں میں طاق پہ اک معجزہ پڑا ہوا ہے
سفید طشت میں گردن مری رکھی ہویٔ ہے
عَلَم بہ دست مرا مدعا پڑا ہوا ہے
مجھے ہنوز وفا کی امید ہے تجھ سے
اگرچہ نام ترا بے وفا پڑا ہوا ہے۔
یحییٰ خان یوسف زییٔ ۔ پونہ ۔ انڈیا
**************** |