* اپنے حصّے کا آسماں لے کر *
اپنے حصّے کا آسماں لے کر
کہیں چلتے ہیں تتلیاں لے کر
ہم کو یہ دھند پار کرنی ہے
تیری یادوں کا کارواں لے کر
درد رہنے لگا پشیماں سا
یہ مری خاک رائگاں لے کر
دوستوں نے جہانِ کل مانگا
ہم چلے اپنی خوبیاں لے کر
میرے سر پر یہ آسمان تو ہے
کیا کروں شہرِ بے اماں لے کر
توُ خدا تو نہیں ہے ، پھر مجھ سے
چاہتا کیا ہے امتحاں لے کر
************************* |