* دل؛ درد کو آنکھوں سے گذرنے نہیں دی *
سر‘ مرحلۂ ھجر بھی کرنے نہیں دیتا
دل؛ درد کو آنکھوں سے گذرنے نہیں دیتا
جینے بھی نہیں دیتی مجھے گردشِ ایآم
اور وقت مجھے چین سے مرنے نہیں دیتا
دل ہے کہ لیٔے جاتا ہے اُس کُوچے میں ہم کو
پھر خود ہمیں اُس جا وہ ٹھرنے نہیں دیتا
تکتا ہے وہ کمبخت بھی بالکل مِرے جیسا
آیٔنہ ؛ اُسے ڈھنگ سے سنورنے نہیں دیتا
گوشہ مِری تنہایٔ کا ہے افلک الافلاک
مجھ کو کسی دنیا میں اُترنے نہیں دیتا
******************************* |