* تِری یادوں سے باہر آ گیا ہوں *
تِری یادوں سے باہر آ گیا ہوں
میں اب خوابوں سے باہر آ گیا ہوں
نکھرتی ہے فضاۓ موسمِ جاں
میں کن پرتوں سے باہر آ گیا ہوں
سرِ افلاک کویٔ فاختہ ہے ؟
تو کیا شاخوں سے باہر آ گیا ہوں
کنارے دشمنی پر ہیں اُتر آۓ
جو میں موجوں سے باہر آ گیا ہوں
انہیں سمجھو نہیں تم میرے آنسو
میں شریانوں سے باہر آ گیا ہوں
مِرے اندر کویٔ شۓ گھُٹ رہی تھی
سو میں سانسوں سے باہر آگیا ہوں
گھِرا جب سے عدو کے دایٔرے میں
تو اندیشوں سے باہر آ گیا ہوں
اُٹھے نہ دھوپ کا سایہ بھی سر سے
سو میں چھاؤں سے باہر آگیا ہوں
مِری آہوں کوبھی اک اسم دے دے
میں اب حرفوں سے باہر آ گیا ہوں
مُجھے تڑپا ، جلا ، کویٔ سزا دے
تِری قدروں سے باہر آ گیا ہوں ۔
************************ |