* آگ ہی آگ ہے اٹھتے ہی نہیں اب تو قدم *
غزل
آگ ہی آگ ہے اٹھتے ہی نہیں اب تو قدم
اے خدا ابرِ کرم ابرِ کرم ابرِکرم
تیری رحمت بھی بھلا جوش میں آئے کیسے
نہ کوئی محوِدعا ہے نہ کوئی چشم بہ نم
کتنا حالات سے مجبور ہوا ہے انسان
جان دینے کیلئے شوق سے پی لیتا ہے ستم
کچھ نہ جائے گا وہاں ساتھ میں جزنیک عمل
چھوڑ کر جانا ہے دنیا میں سبھی جاہ وحشم
کوئی شے ایسی نہیں جس میں توُ موجود نہ ہو
کوئی پل ایسا نہیں جس میں نہ ہوتیرا کرام
لوگ آرائش دنیا میں مگن ہیں کتنے
یہ سمجھتے ہیں کہ جانا ہی نہیں ملک عدم
روز اخبار میں پڑھ لیتے ہیں ایسی خبریں
جن سے بے ساختہ ہوجاتی ہیں آنکھیں پرنم
مدحِ خالق کا میں اک پل بھی نہیں کھو سکتا
سامنے آنکھوں کے رکھتا ہوں میں قرطاس وقلم
یاس اک پل بھی کبھی غور سے سوچا تو نے
کس لیے آئے تھے انسان کے دنیا میں قدم
+++
|