* بھروسہ کرلوں یہ میں کوئی باوفاتو *
غزل
بھروسہ کرلوں یہ میں کوئی باوفاتو لگے
کوئی فرشتہ صفت کوئی بے خطا تولگے
کوئی کمی ہے اگر مجھ میں مان لوں میں بھی
یہ شرط ہے کہ کوئی مثلِ آئینہ تولگے
عذاب جاں ہے یہ دنیا تو چھوڑوں لیکن
عدو کی حق میں مرے کوئی بدعا تولگے
میں اعتراف گناہوں کا کرتو لوں لیکن
عمل میں اپنے کوئی مجھ کو پارسا تو لگے
میں ڈر رہاہوں کہیں کچھ ترے خلاف نہ ہو
جو کررہا ہوں میں اس میں تری رضا تو لگے
وہ ایک پل کیلئے بھی خفا نہیں ہوتا
ہزار بار منالوں مگر خفا تو لگے
وہ روز کہتا ہے مجھ کو مرا پس پردہ
یہ بات اس کی کبھی مجھ کو برملا تولگے
مرے کلام میں اے یاسؔ یاسیت تو نہیں
اگر کہیں ہے بتائو مجھے پتاتو لگے
+++
|