* احتیاط والوں سے غلطیاں نہیں ہوتیں *
غزل
احتیاط والوں سے غلطیاں نہیں ہوتیں
آئینہ کی صورت میں خامیاں نہیں ہوتیں
جب کبھی محبت سے دوقلوب ملتے ہیں
فاصلہ نہیں رہتا دوریاں نہیں ہوتیں
عشق میں بس اک طوفاں دل ہی دل میں اٹھاتا ہے
چشمِ دل برستی ہے بدلیاں نہیں ہوتیں
کیوں ہراک برائی کو خوبیوں سے دوں تشبیہ
کون ایسا ہے جس میں خامیاں نہیں ہوتیں
باضمیر لوگوں کی قربتیں کروحاصل
بے ضمیر لوگوں میں خوبیاں نہیں ہوتیں
کیا کوئی اچھا لے گا اب سروں پہ انساں کے
ٹوپیاں نہیں ہوتیں پگڑیا نہیں ہوتیں
کام آئو اوروں کے اجر بھی خدا دے گا
رائیگاں حقیقت میں نیکیاں نہیں ہوتیں
کون لے بتائو تو اب غریب کی بیٹی
مختصر، زمانے میں شادیاں نہیں ہوتیں
بول پین سے بچے کاپیوں پہ لکھتے ہیں
اب قلم نہیں ہوتا تختیاں نہیں ہوتیں
بے حیائی کا عالم ہر طرف نمایاں ہے
اب گھروں میںبچوں پر سختیاں نہیں ہوتیں
ابتدائے الفت میں یاسؔ ایسا ہوتا ہے
پیار بڑھتا رہتا ہے تلخیاں نہیں ہوتیں
+++
|