* تڑپ رہا ہے دل نامراد مدت سے *
غزل
تڑپ رہا ہے دل نامراد مدت سے
ستارہی ہے مجھے ان کی یاد مدت سے
اذیتوں نے مجھے ہر طرف سے گھیر لیا
ہوا نہ یہ دل ناشاد شاد مدت سے
غزل سرائی تو جاری ہے دشت میں لیکن
نہ آئی کان میں آواز داد مدت سے
مجھے خیال ہے ہر دم یہ بے حسی ہے مری
ادا ہوئے نہ حقوق العباد مدت سے
ہر ایک بات فراموش کر کے آجائو
قرارِ جاں مجھے آتی ہے یاد مدت سے
یہی ہے وجہ کہ پرسانِ حال کوئی نہیں
بنا ہوا ہے دلوں میں تضاد مدت سے
وہ اس طرح سے الگ ہیں کہ جانتے ہی نہیں
کہ جن کو مجھ سے رہا ہے مفاد مدت سے
ہو التفات کا پودا ہرا بھرا کیسے
چلی نہ پیار محبت کی باد مدت سے
جناب یاس جو پڑھتے ہیں شعر محفل میں
سبھی خلوص سے دیتے ہیں داد مدت سے
+++
|