* کوئی قاتل نہیں مقتول کہاں سے آیا *
غزل
کوئی قاتل نہیں مقتول کہاں سے آیا
پھول کے بدلے یہ تر شول کہاں سے آیا
سب ہی مشہور ہیں معروف ہیں اس محفل میں
غیر معروف یہ مجہول کہاں سے آیا
چندلفظوں میں ادا ہونا تھا مطلب سارا
مختصر بات میں یہ طول کہاں سے آیا
کوئی پوچھے توسہی ایسے مسافر سے کہ جو
گرد آلود لیے دھول کہاں سے آیا
اجنبی کون ہے یہ کوئی بتائے مجھ کو
بات کہتا ہوا معقول کہاں سے آیا
جس کا سرپیر نہیں یہ بھی کوئی بات ہوئی
جس کا فاعل نہیں مفعول کہاں سے آیا
ہم تو سرڈھک کے نمازوں کو ادا کرتے ہیں
ننگے سرپڑھ نے کایہ رول کہاں سے آیا
کر گیا تیز وہ بینائی مری آنکھوں کی
لے کے وہ سرمۂ محلول کہاں سے آیا
مت بلائو مجھے اے یاسؔ یونہی رہنے دو
لوگ پوچھیں گے یہ مجہول کہاں سے آیا
+++
|