* کیسے کیسے نونہا لانِ چمن مٹی ہوئے *
غزل
کیسے کیسے نونہا لانِ چمن مٹی ہوئے
گل بدن مٹی ہوئے غنچہ دہن مٹی ہوئے
موت نے دامن نہ چھوڑ ا لے گئی بس کھینچ کر
تھا ادائوں میں وہ جن کی بانکپن مٹی ہوئے
موت نے بخشا ہے آخر کب کسی کو امتیاز
سخت جاں مٹی ہوئے نازک بدن مٹی ہوئے
منزلیں ہیں نوحہ خواں اور راستے ہیں اشکبار
رہ روانِ شوق رہبر راہزن مٹی ہوئے
بچ نہیں سکتے اجل سے وہ حسیں ہوں یا جمیل
مرمریں تھے جسم جن کے سیم تن مٹی ہوئے
کر گئے مٹ کر وہ قائم اک محبت کی مثال
کوہ کن مٹی ہوئے شیریں بدن مٹی ہوئے
نام لیوا بھی نہیں ہے کوئی ان کا آج تک
اس جہاں کے کیسے کیسے مرد وزن مٹی ہوئے
ناز کرتی تھی وہ جن پر عظمتِ انسانیت
وہ مفکر وہ تدبر کے گگن مٹی ہوئے
کیا حقیقت ہے کسی کی یاسؔ ان کے سامنے
خوشنما درعدن لعلِ یمن مٹی ہوئے
+++
|