* میں کام انگلی سے لیتا ہوں قلم کا *
غزل
میں کام انگلی سے لیتا ہوں قلم کا
ادا کرتا ہوں یوں بھی حق رقم کا
زباں عاجز رہی اظہار غم سے
بہت ممنون ہوں میں ضبط غم کا
خوشی میرا تعاقب کررہی ہے
یہ میں نے ہاتھ کیوں پکڑا ہے غم کا
ہمارا دل تو منصف ہے یقیناً
سوال اٹھتا نہیں ہے بیش وکم کا
یہ کیسے لوگ ہیں جانوں کے دشمن
کہ جاری سلسلہ ہے روزبم کا
مرے مولا کبھی تو بھیج دے تو
کوئی ٹکڑا ادھر ابرِ کرم کا
چلوں تو منکشف ہوتی ہیں راہیں
نہیں محتاج میں نقش قدم کا
کرے گایاسؔ کیا دنیا میں رہ کر
کھلا ہے راستہ ملکِ عدم کا
+++ |