* تقاضا ہے یہی بس چشم نم کا *
غزل
تقاضا ہے یہی بس چشم نم کا
اک افسانہ لکھوں میں دردوغم کا
خدا جس حال میں بھی مجھ کو رکھے
میں بھوکا تو نہیں جاہ وحشم کا
میں گھرا کر کبھی بھی آفتوں سے
سہارا لے نہیں سکتا ہوں سم کا
بہ ہر صورت ملے گی مجھ کو منزل
میں عادی ہوگیا ہوں پیچ وخم کا
کرو تم آج جتناظلم چاہے
ملے گا تم کو بھی بدلہ ستم کا
نہ ہوں گا میں تو سب خوش ہونگے گھر میں
یہ جھگڑا تو فقط ہے میرے دم کا
تمنا ہے بہت مدت سے دل میں
کہ میں بھی پاسباں ہوتا حرم کا
شکایت تو نہیں ہے یاسؔ ممکن
خوشی کے ساتھ اٹھالے بار غم کا
+++
|