* میں رختِ دل میں وجود کے سب فشار بان *
غزل
یاور ماجد
میں رختِ دل میں وجود کے سب فشار باندھے
چلا ہوں پاؤں میں پھر پرانے غبار باندھے
نہیں سے ہاں سے یہ اک تعلق نہ ٹوٹ پایا
ہیں عہد خود سے ہزار توڑے، ہزار باندھے
دھنک بہاروں کی گلستاں میں جو آ نہ پائی
تو ابر کرنوں پہ پل پڑے ہیں، حصار باندھے
فلک پہ جائے نماز افق کی بچھا کے دیکھو
نکل پڑے ہیں پرند سارے قطار باندھے
جنون دل کا، نہ جستجو ہے نظر کی باقی
یہ بار سر سے ہیں میں نے کب کے اتار باندھے
تبسمِ گُل بھی دل کا غنچہ نہ کھول پایا
تو اور کتنا حسین منظر، بہار باندھے؟
جنم جنم سے میں اس جنوں کی تلاش میں ہوں
جو ہوش نظروں کا توڑ دے جو، خمار باندھے
************** |