* عُمرِ اُداس صدیوں سے کیا کاٹتی رہ® *
عُمرِ اُداس صدیوں سے کیا کاٹتی رہی
پیہم سفر، سفر سے سوا کاٹتی رہی
میری بصیرتیں تو مرے دل میں تھیں نہاں
اشکوں کی دھار! تُو بھی یہ کیا کاٹتی رہی؟
اظہار کے جنوں نے نہ جینے کبھی دیا
اک پھانس تھی الگ، جو گلا کاٹتی رہی
آتے ہوئے زمانوں سے جب گفتگو ہوئی
میری ہر ایک بات ہوا کاٹتی رہی
آنسو نے میرے کتنے گگن رنگ سے بھرے
اک بوند ہرکرن کا گلا کاٹتی رہی
صدیوں سے میَں نہ کاٹ سکا عمرِ ناتمام
اِک پل کی عمر مُجھ کو سدا کاٹتی رہی
تکمیل کی طلب نے ادھورا کیا مجھے
لکھا ہر ایک شعر مرا کاٹتی رہی
یاور ماجد
__________________ |