donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
design_poetry
Share on Facebook
 
Yawar Maajed
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
* اردو شاعری اور دوسری زبانوں کے ال  *
کسی بھی زبان کے زندہ ہونے کی سب سے بڑی علامت یہی سمجھی جاتی ہے کہ وہ نئے دور کے تقاضوں کے ساتھ ساتھ اپنے اندر تبدیلیاں لاتی جائے۔ ایسے الفاظ متروک ہوجاتے ہیں جو کسی زمانے میں رائج تو ہو گئے لیکن لوگوں کے مزاج کا حصہ نہ بن سکے، ایسے الفاظ بھی متروک ہو جاتے ہیں جو لوگوں کی ہجرت کے ساتھ نئے علاقوں میں وہاں کے باشندوں کے مزاج سے مطابقت نہ رکھتے ہوں۔ اگر زبان میں دوسری زبانوں خصوصاً مقامی زبانوں کو اپنے اندر جذب کرنے کی صلاحیت نہ ہو تو اس کا نئی جگہوں اور نئی ثقافت میں پھلنا پھولنا نا ممکن ہوتا ہے۔
۔۱۹۴۷ کی ہجرت ایک بہت غم انگیز تاریخی واقعہ ہے، یہ بات اپنی جگہ، لیکن اس کا ایک مثبت پہلو یہ نکلا کہ اردو ہندوستان، خصوصاً دلی اور لکھنئو سے نکل کر پنجاب، سندھ، بلوچستان اور سرحد تک ہر محلے اور گلی کوچے میں آن پہنچی۔ میں اس بات کو اردو کی خوش قسمتی سمجھتا ہوں کہ اسے پاکستان اور خصوصاً پنجاب کے رہنے والے کھلے دل کی ثقافت کی میزبانی نصیب ہوئی۔ پاکستان کے لوگوں، خصوصاً پنجاب کے لوگوں نے زبان کے تعصب کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اردو ادب کو بہت بڑے بڑے نام دیئے، مجھے یہ دعویٰ کرنے میں کوئی جھجک نہیں کی اردو ادب کے اساتذہ کے بعد اگر اردو ادب کی صحیح معنوں میں خدمت ہوئی تو وہ پاکستان کے مقامی شعراء کے ہاتھوں ہی ہوئی۔ ایسے میں اس زبان میں مقامی الفاظ کا یا مقامی تلفظ کا در آنا ایک فطری امر تھا، جو کہ ہوا اور مزید ہوتا رہے گا۔
یہ ایک حیرت انگیز بات ہے کہ جہاں عوام میں بولی جانے والی اردو تبدیل ہوئی وہاں اردو ادب میں، خصوصاً اردو غزل میں اس رویئے کی شدید مخالفت کی گئی اور آج بھی اگر پنجابی تلفظ کے ساتھ اردو غزل میں کوئی شاعر کوئی لفظ پنجابی یا مقامی تلفظ کے ساتھ باندھ دے تو اس کے خلاف کم از کم ایک آدھ آواز ضرور اٹھتی ہے۔ اردو الفاظ کے مقامی تلفظ کے استعمال کے معترضین تو سیدھا سیدھا کہہ کر بحث ختم کر جاتے ہیں کہ ایسا رویہ زبان کی حرمت کے لئے نقصان دہ ہے اور ایسا کرنے والے عجزِ بیان کے مارے ہوئے وہ کم علم شعراء ہیں جو نہ تو زبان کا علم رکھتے ہیں نہ فن پر ان کی کوئی خاص دسترس ہوتی ہے۔ اس نظریئے کے حامی اپنے آپ کو ترقی پسندانہ رویئے کے علمبردار بتاتے ہیں اور الفاظ کو مقامی تلفظ میں ادا کرتے ہوئے شعر و ادب اور خصوصاً زبان کی خدمت قرار دیتے ہیں۔
جہاں اردو زبان پر مقامی الفاظ کا اثر ہوا، وہاں ذرائع ابلاغ کی بدولت اور ایک گلوبل کلچر کی پذیرائی کے نتیجے میں انگریزی زبان بھی اردو میں در آئی۔  یہاں تک کہ آپ اگر اردو گرامر استعمال کرتے ہوئے سارا فقرہ بھی انگریزی میں کہہ ڈالیں تو عام لوگ اس کو نہ صرف سمجھ جاتے ہیں بلکہ اس کا جواب بھی اسی سے ملتے جلتے انداز میں دیتے ہیں۔ گو کہ ان الفاظ کے بھرپور اردو مترادفات بھی موجود ہوتے ہیں اور ایسا کرنے والے عموماً اپنے آپ کو سماجی سطح پر تھوڑا بلند خیال کرتے ہوئے یا بلند ثابت کرنے کے لئے ایسا کرتے ہیں۔ خواص تو کیا عوام میں بھی انگریزی کے الفاظ روزمرہ کی زبان میں استعمال کرنا اب اس قدر معیوب نہیں سمجھا جاتا۔ ایسے میں کچھ شعراء نے شعوری طور پر انگریزی کے الفاظ اردو شاعری میں لانے کی سعی کی اور خصوصاً آزاد نظم میں نہ صرف انہیں کامیابی سے استعمال کیا بلکہ ان کے اس رویئے کی کسی بڑے پیمانے پر مخالفت بھی نہیں ہوئی۔ مسئلہ تب شروع ہوا جب لوگوں نے انگریزی کے الفاظ کو اردو غزل میں لانا شروع کیا۔ اس پر شعراء واضع طور پر دو مختلف نظریہ ہائے فکر سے بندھے نظر آئے، ایک وہ جو اس ملاپ کے حامی ہی نہیں تھے بلکہ اس کے پرچارک اور عملدار بھی، اور دوسرے وہ جو اردو زبان کی حرمت کے نام پر اس کے سخت مخالف ہوئے۔
میری اپنی شعری تربیت میں میرے والد محترم ماجد صدیقی اور ان کے اور میرے مشترکہ محترم دوست جناب آفتاب اقبال شمیم کا بہت حصہ ہے۔ وہ دونوں ہی انگریزی زبان کو اردو شاعری میں استعمال  کرنے کے خلاف نہیں ہیں۔ مجھے بچپن کا ایک قصہ یاد ہے جب میرے والد محترم کے ایک دوست اسی موضوع پر ان سے کافی گرما گرم بحث میں مصروف تھے، اگلے دن وہ پھر آئے تو میرے والد نے انہیں ایک غزل سنائی جس کے ہر شعر میں ایک لفظ انگریزی سے لیا گیا تھا۔ لیکن وہ لفظ اردو میں اس قدر جذب ہو چکے ہیں کہ کچھ اشعار میں تو یہ محسوس بھی نہ ہو سکا کہ انگریزی استعمال کی گئی ہے۔
 
شیشے کے اِک فریم میں کچھ نقش قید تھے
میری نظر لگی تھی کسی کے جمال پر
 
ہنستی تھی وہ تو شوخیِ خوں تھی کُچھ اس طرح
جگنو سا جیسے بلب دمکتا ہو گال پر
 
رکھا بٹن پہ ہاتھ تو گھنٹی بجی اُدھر
در کھُل کے بھنچ گیا ہے مگر کس سوال پر
 
میک اَپ اُتر گیا تو کھنڈر سی وہ رہ گئی
جیسے سحر کا چاند ہو ماجدؔ زوال پر
 
فریم ، بٹن  میک اپ اور بلب جیسے الفاظ ہر کوئی سمجھتا ہے، بلکہ سچ پوچھیں تو بلب، فریم اور بٹن کے بجائے اگر قمقمہ، چوکھٹا، ڈھانچ، ڈھچر یا سیپ یا بوتام وغیرہ کہیں تو ننانوے فی صد لوگ آپ کا منہ دیکھنے لگ پڑیں گے کہ یہ آخر کہہ کیا رہا ہے۔ ایسے الفاظ  سے گریز  ممکن ہی نہیں۔ بات اگر یہاں تک رہے تو قبولیت کے امکانات کافی ہیں لیکن کئی شعراء نے ایسے الفاظ بھی اردو نظم اور اردو غزل میں استعمال کئے جن کے بھرپور متبادل اردو میں موجود ہیں۔ اگر کسی لفظ کا متبادل اردو میں موجود ہو تو میں بذاتِ خود اردو متبادل کو شعروشاعری تو کیا اردو نثر تک میں استعمال کرنے پر فوقیت دیتا ہوں، میں زبان کے مروجہ اور کلاسیکل اصولوں کے اندر رہتے ہوئے زبان میں لائے جانے والی جدتوں کا حامی بھی ہوں اور پرچارک بھی۔
 
یہ ایک الگ بحث ہے کہ اردو میں انگریزی الفاظ کا استعمال درست ہے یا غلط ، اور اگر درست ہے تو کب اور کیسے، غلط ہے تو کیونکر۔ اس نظریے کے حامی یہ کہتے نہیں تھکتے کہ اگر ہم نئی زبانوں کو اردو کا حصہ نہیں بنائیں گے تو ہماری زبان اپنی موت آپ مر جائے گی اور یہ کہ عام فہم میں رائج انگریزی کے الفاظ کو ادب کا حصہ بنا کر وہ شاعری کو نئی نسل تک پہنچانے میں زیادہ موثر کردار ادا کر رہے ہیں۔ جب کہ مخالفین کا نقطہءِ نظر یہ ہے کہ بادی النظر میں زیادہ تر شعرا ایسے الفاظ اردو شاعری میں گھسیٹ لاتے ہیں جن کے متبادل اردو میں نہ صرف موجود ہیں بلکہ بھرپور طور پر مستعمل بھی ہیں۔ جیسے کار اور بلب کو تو شاعری میں استعمال کریں سو کریں، محبوب کے لئے سویٹ ہارٹ یا عشق کے لئے ،،لو،، استعمال کرنے سے زبان کی کونسی خدمت ممکن ہے؟  گو اس بات سے تو اختلاف ممکن ہی نہیں کہ جب جدید رویئے اور اشیا کسی ثقافت میں یا کسی زبان میں داخل ہوتی ہیں تو دوسری زبانوں کے الفاظ اپنے ساتھ لے کر آتی ہیں۔۔ جیسا کہ کار، کمپیوٹر، کی بورڈ۔ بٹن، انٹرنیٹ، بلب ، ہاکر، ای میل، سرکٹ  اور نمبر وغیرہ، ان الفاظ کے مترادفات اردو میں سرے سے موجود ہی نہیں، تو کیا کیا جائے۔
 
رئیس فروغ کے تین اشعار پیشِ خدمت ہیں
 
لڑکیاں، روشنیاں، کاریں، دکانیں، شامیں 
انہی چیزوں میں کہیں میرا بدن ہے لوگو
 
یہ مرا ہمزاد ہاکر تو نہیں؟ 
بیچتا پھرتا ہے سایہ دھوپ میں 
 
شارٹ سرکٹ سے اڑی چنگاریاں
صدر میں اک پھول والا جل گیا
 
شارٹ سرکٹ، کار اور ہاکر جیسے الفاظ ہی نہیں یہ چیزیں بذاتِ خود برصغیر میں انگریزوں کی آمد کے بعد ہی آئیں۔ ان الفاظ کو ان اشعار میں سے نکالا ہی نہیں جا سکتا ، اس کے ساتھ ساتھ ان اشعار میں موجود  شعریت پر بھی انگلی اٹھانا کارِ محال ہے۔
 
اور تو اور حضرت مرزا اسد اللہ خان غالب تک نے انگریزی کے الفاظ استعمال کرنے میں عار نہیں سمجھی۔ ایک سہرے میں فرماتے ہیں
 
سر پہ چڑھنا تجھے پھبتا ہے پر اے طرفِ کُلاہ
مجھ کو ڈر ہے کہ نہ چھینے تِرا لمبر سہرا
 
پنجابی اور اردو میں کچھ حروف اور ان کی ادائیگی کا مسئلہ ضرور ہے لیکن ان دو زبانوں میں کوئی بنیادی تضاد ہرگز نہیں۔ لیکن انگریزی زبان اپنی ساختیات کے لحاظ سے اردو سے ایک لحاظ سے بہت ہی مختلف ہے۔ میں اردو میں کوئی بھی ایسا لفظ ڈھونڈنے سے قاصر ہوں جو ساکن حرف سے شروع ہوتا ہو، لیکن انگریزی میں ایسے ہزاروں الفاظ مل جاتے ہیں۔ اس سے پہلے کہ میں اس پر مزید بات کروں، اپنے ان قارئین کے لئے جنہیں متحرک اور ساکن حروف کے بارے میں زیادہ علم نہیں ایک چھوٹا سا تعارف کرتا چلوں۔
 
لفظ اردو ہی کو لے لیجیئے، اس میں وہ حروف جن پر آپ کی زبان حرکت میں آتی ہے اور لفظ کی جاری ہیئت میں ایک واضع تبدیلی لاتی ہے متحرک حروف ہیں۔ الف اور د، اسی طرح لفظ پنجابی میں پ ج اور ب کے حروف متحرک ہیں جبکہ ن ا اور ی کے حروف ساکن۔ لفظ انگریزی میں ا ر اور ز جبکہ لفظ قفس میں ق اور ف متحرک جب کہ س ساکن ہے۔
 
اب واپس آئیں اور انگریزی کے ان الفاظ پر غور کریں
فریم
سکول
سپورٹ بمعنی کھیل
کراس
ٹرک
 
ان تمام الفاظ کو اردو کے ساکن اور متحرک والے اصول پر پرکھا جائے تو فریم کو فَریم یعنی ف کے  اوپر زبر سکول کے س، سپورٹ کے س، کراس کے ک اور ٹرک کے ٹ پر زبر لگانی  پڑے گی۔
کچھ الفاظ، خصوصاً انگریزی حرف ،،ایس،، سے شروع ہونے والے الفاظ کے لئے کسی زمانے میں لوگوں نے لفظ سے پہلے الف لگانے کا تجربہ کیا، سکول کو اسکول بنا دیا گیا، اور سپورٹ  کو اسپورٹ کہا گیا۔ لیکن یہ اصول فریم اور ٹرک جیسے الفاظ پر لاگو نہیں ہو سکا، اور آج تک کسی نے فریم کو افریم اور ٹرک کو اٹرک نہیں کہا۔
اب واپس لفظ سپورٹ پر آئیں۔ اگر اردو کے قاعدے پر آئیں اور س کو متحرک کریں تو
Sport
 کا لفظ
support
بن جاتا ہے جس کے معنی بالکل ہی مختلف ہیں۔ دوسرا یہ کہ دنیا کے کسی بھی حصے میں انگریزی بولنے والا کوئی بھی شخص فریم میں ف کو متحرک نہیں کرے گا، سکول کے س اور ک کو ایک ہی حرف کے طور پر لیتے ہوئے ایک نئےحرف کے طور پر ادا کرے گا، ٹرک کو ٹَ رَک نہیں کہے کا بلکہ ٹر کے دونوں حروف سے ایک ہی حرف کی آواز نکالے  گا۔ اسی طرح الفاظ کے آخر میں آنے والے حروف بھی توجہ کے لائق ہیں ۔۔ جیسا کہ لفظ کورٹ بمعنی عدالت۔ پاسٹ بمعنی ماضی۔  انگریزی میں کورٹ کا ،،او،، ،،یو،، ،،آر،، اور ،،ٹی،، چاروں ہی ساکن ہیں، خیال رہے کہ او اور یو مل کر ایک ہی آواز بنا رہے ہیں اس لئے ان کو ایک ہی حرف کے طور پر لیا جا سکتا ہے۔ لفظ پاسٹ میں اے ایس اور ٹی تین الفاظ اکٹھے ساکن آ گئے ہیں۔  لیکن یہ کنسٹرکٹ اردو زبان میں سرے سے موجود ہی نہیں۔ یہاں یہ بھی یاد رہے کہ عروضی قواعد کے مطابق جب دو ساکن خروف اکٹھے آ جائیں تو  دوسرا حرف متحرک ہوجاتا ہے۔ جیسا کہ اس شعر میں لفظ ٹوٹ، نظم  اور عمر
 
خود قلم بن کے، ٹوُٹ کر لکھی
ایک ہی نظم عمر بھر لکھی
 
ٹوٹ کا آخری ٹ، نظم کا م اور عمر کا ر گو الفاظ میں ساکن ہیں لیکن شعری پیمانوں میں تلنے کے بعد متحرک پڑھے جاتے ہیں۔ اب ایسے ہی مصرعے میں کورٹ کا وزن لا کر دیکھیں جس میں دو نہیں آخر کے اکٹھے تین حروف ساکن آ گئے ہیں، عروضی پیمانوں کے اندر رہتے ہوئے اس کا کیا حل نکالا جا سکتا ہے؟ یا تو کورٹ کو کور یا کوٹ کے وزن پر باندھا جائے جیسا کہ  فعولن فعولن فعولن فعل کی بحر میں یہ مصرع
قدم کورٹ میں اس نے رکھا تھا جب
یا کورٹ میں ر اور ٹ دونوں کو متحرک کیا جائے، موخرالذکر کام کرنے سے لفظ کے انگریزی تلفظ کا وہ کباڑا ہو گا کہ مصرع پڑھتے ہوئے بھی شرم آنے لگے گی جیسا کہ متفاعلن متفاعلن کی بحر میں یہ مصرع
کبھی کورٹ میں قدم رکھو
الفاظ کے ایک زبان سے دوسری زبان میں جانے کے بعد ان کے تلفظ، ہیئت یا معنی تک میں تبدیلی آنا قدرتی بات ہے۔ اور میں خود الفاظ کو کسی حد تک تبدیل کرنے کے حق میں ہوں ۔  میں نے دیکھا ہے کہ اردو شعراءِ کرام ایسے الفاظ کو اپنی سہولت کے مطابق شعر میں جیسے موزوں لگے استعمال کر ڈالتے ہیں، کہیں لفظ ڈرائیور کو مفاعلن کو وزن پر  یعنی ڈ اور ر کو الگ الگ حروف گردانتے ہوئے ڈ پر زبر لگا کر اور کہیں ڈ اور ر کو ایک ہی حرف کے طور پر لیتے ہوئے انگریزی تلفظ کے ساتھ۔  ڈرائیور بر وزنِ مفاعلن۔  انگریزی تو کیا پنجاب کے کسی دیہات تک میں یہ لفظ اس تلفظ کے ساتھ نہیں بولا جاتا ۔
 
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پچھلے پچاس پچھتر سال سے جاری اس بحث کو کسی نتیجے پر پہنچانے کے لئے کسی اصول پر اتفاق کیا جائے یا اس شترِ بےمہار کو میدانِ ادب میں ایسے ہی مٹر گشتی کے لئے چھوڑ دیا جائے۔ اردو زبان کی ساختیات میں تبدیلی لائی جائے یا انگریزی زبان کے اس کنسٹرکٹ کو تبدیل کرتے ہوئے ان الفاظ کے تلفظ کو تبدیل کر دیا جائے۔  یا انگریزی کے ان الفاظ کا استعمال اردو شاعری میں کیا ہی نہ جائے جو اردو زبان، اور عروضی قواعد کے مزاج کے خلاف ہیں۔ انگریزی کا یہ کنسٹرکٹ روزمرہ کی زبان میں قبولیت حاصل کر چکا ہے سکول کو عام زبان میں کوئی بھی اسکول یا سکول بروزن بتول نہیں بولتا، کورٹ کو ہر شخص کوٹ کے وزن پر بولتا ہے فعلن کے وزن پر نہیں، تو شاعری میں اس کنسٹرکٹ کو قبول کر لینے میں کیا قباحت ہے؟۔۔۔۔ شعر لکھتے ہوئے ہم سکول کو بتول یا اسکول کے وزن پر باندھنے پر کیوں بضد ہو جاتے ہیں۔
 
 
زبان کا ارتقائی عمل صدیوں پر محیط ہوتا ہے اور ایسی باتوں پر کوئی فیصلہ دلوانے کا سوال اپنی جگہ بچگانہ سوچ ہے۔  میرا یہ مضمون لکھنے کا مقصد صرف اس بحث کو آگے بڑھانا ہے جس پر مختلف آراء لوگوں میں موجود تو ہیں لیکن ان کی کسی ایک جگہ تالیف ابھی تک نہیں ہوئی۔
 
 
انگریزی زبان میں موجود کچھ اور حروف یا کنسٹرکٹس ایسے ہیں جن کا متبادل یا تو ااردو میں سرے سے موجود ہی نہیں یا اگر موجود ہے بھی تو بہت مشابہ نہیں، جیسا کہ لفظ
Long
 
میں الف اور واو کے درمیان کی جو آواز آپ انگریزی زبان بولتے ہوئے نکالتے ہیں، کے لئے اردو حروفِ تہجی میں سرے سے کوئی حرف ہے ہی نہیں۔۔۔ یا آپ اسے لانگ لکھیں گے، یا لونگ۔۔ اردو بولنے والے لوگ اس آواز کو بخوبی ادا تو کر لیتے ہیں لیکن لکھتے ہوئے اردو کی دونوں طرح کی املا ہی اصل آواز کا احاطہ کرنے سے قاصر ہے۔
 
W
کے حرف کی آواز اردو میں سرے سے موجود ہی نہیں صرف
V
کی ہے اور ہم
V
اور
W
 دونوں کو ایک ہی آواز کے ساتھ بولتے ہیں۔
TH
مل کر انگریزی میں جو آواز بناتے ہیں اس کا متبادل بھی اردو میں موجود نہیں جیسا کہ
This
اور
That
کے الفاظ جن میں
Th
 کی آواز زبان کی نوک اوپر کے دانتوں کے نیچے سے باہر نکال کر ادا کی جاتی ہے، ہم بولتے ہوئے
TH
کو د کے حرف سے ادا کرتے ہیں جو کہ انگریزی اہلِ زبان کو بعض اوقات سمجھ بھی نہیں آتا۔
 
یہی نہیں دوسری زبانوں میں ایسی کئی آوازیں ہیں جو ہم اردو بولنے والے بول تو سکتے ہیں لیکن لکھنے سے قاصر ہیں جیسا کہ فرانسیسی زبان کا لفظ
 
pierre
جس میں لفظ کا آخری حصہ غ اور خ کے درمیان کی آواز نکالتا ہے۔
 
 
کیا ان الفاظ کے لئے نئے حروفِ تہجی لائے جانے چاہیئں؟  کیا اس ضمن میں کوئی شعوری کوشش زبان کے لئے مفید ثابت ہو سکتی ہے؟
*******************
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 532