* نذرِ غالب زندگانی ! زندگانی اور ہے *
نذرِ غالب
زندگانی ! زندگانی اور ہے
رائیگانی ! رائیگانی اور ہے
ایک ہی پل اور تیرا ساتھ ہے
ایک ہی پل جاودانی اور ہے
ناگہاں یہ زندگی ہی کم تھی کیا؟
مرگ بھی کیا ناگہانی اور ہے؟
خوش گماں! اے خوش گماں! اے خوش گماں!۔۔
بــول!! کتــنی خــوش گــمــانی اور ہے؟
جس کو اپنی منزلوں کی ہو خبر
ایسے دریا کی روانی اور ہے
آؤ لے آؤ سبھی تنہائیاں
ہم نے اب محفل جمانی اور ہے
ہے مصیبت اور ہی دل کی مگر
ہم نے لوگوں کو بتانی اور ہے
شاعری میری فقط ہذیاں سہی
کب کہا میں نے کہ معنی اور ہے؟
کربلا ہے، کربلا ہے، زندگی!!۔
اس پہ اپنی نوحہ خوانی اور ہے
ہیں سخنور اور بھی یاوؔر مگر
تیری یہ شعلہ بیانی اور ہے
************ |