* کیا ہوا جو مہ و اختر کے برابر نہ اڑا *
غزل
یاور ماجد
کیا ہوا جو مہ و اختر کے برابر نہ اڑا
وقت کی آندھی مجھے دھول سمجھ کر نہ اڑا
میں نے کب تجھ سے بہاروں کی تمنا کی تھی
کم سے کم رنگ مرے باغ کا صرصر نہ اُڑا
کیسے اُڑ پائے گا آئندہ کے طوفانوں میں
وہ تو ماضی کے قفس سے کبھی باہر نہ اُڑا
یہ برستی ہوئی بوندیں تو گھٹا کی دیکھو
کون کہتا ہے گگن میں کبھی ساگر نہ اُڑا
کس نے اُڑتے ہوئے ساگر کو فلک پر دیکھا
ایسی بے پر کی مری جاں، مرے یاور نہ اُڑا
**************** |