* دِن بھَر کی شورشوں کے دباؤ کے شور س *
غزل
یاور ماجد
دِن بھَر کی شورشوں کے دباؤ کے شور سے
شب کے لِباسِ حبس میں کوئی شکن نہیں
کیوں روشنی گروں کی زبانیں ہیں سوختہ
کیوں لَو کسی چراغ کی بھی سینہ زن نہیں
اندھے خلا کی کھائی میں گرتا ہی جاؤں میں
پیروں تلے زمیں نہیں سر پر گگن نہیں
اک نغمہ خامشی کا بنی جائے زندگی
اک رقص ہے کہ جس میں کوئی چھن چھنن نہیں
یاور ہی اِک ہےعاجزو ناچیز و خاکسار
ورنہ یہاں پہ کون خدائے سُخن نہیں
______________ |