* بالِشتیے *
بالِشتیے
یاور ماجد
کُرسیوں پر
میز کے چاروں طرف
بیٹھے ہوئے بالِشتیے
سگرٹیں سُلگائے
اپنی عینکوں کے
ملگجے شیشوں سے
اِک دُوجے کو تکتے
چائے کی چینک سے
کپ میں چُسکیاں بھرتے ہوئے
اور چھلکتی چائے کپ سے چاٹ کر
ڈونگرے برسا رہے ہیں داد کے اک بات پر
۔۔۔۔ زیرِ لب سرگوشیوں میں گالیاں بھی بڑبڑاتے جا رہے ہیں
اِن کے اک اک حرف، اک اک بات میں ایقان ہے
۔۔۔۔اور ایسا اندھا اعتماد
جیسے دُنیاؤں کے خالق نے
انہی کے مشورے سے
زندگی ترتیب دی
گالیوں کے، داد کے اور قہقہوں کے دور میں
چائے کے کپ میں اٹھے طوفاں کے بڑھتے شور میں
لے کے اپنے ہاتھوں میں عدسے مُقَعِّر،
پِنڈلیوں سے بانس باندھے
اپنا اپنا قد چھپا کر
سب کی پَستہ قامتی کو ماپتے بالِشتیے
اونچی آوازوں میں پورے زور سے
بات ہر اک دوسرے کی کاٹتے بالِشتیے
چائے کے کپ چاٹتے بالِشتیے
اکتوبر٣، ٢٠٠٩
************* |