* جو ایک جسم تھے دیکھو کہاں کہاں بھٹ *
غزل
یاور ماجد
جو ایک جسم تھے دیکھو کہاں کہاں بھٹکے
ستارے ٹوٹ کے ہر سمت ناگہاں بھٹکے
ثبات اپنا تذبذب پہ ہی رہا قائم
یقیں کہیں کو گئے اور کہیں گُماں بھٹکے
مری اُڑان کی اوجیں تھیں ماورائے جہات
تلاش میں مری کتنے ہی آسماں بھٹکے
نہ مل سکی اُنہیں پہچان خود پرستی میں
جو اپنی کھوج میں نکلے، کہاں کہاں بھٹکے
نہ راس آئی کبھی اس کو دشت پیمائی
تو کیوں نہ شہر میں آوارہ ءِ جہاں بھٹکے
چلے ہو لمبے سفر پر، نظر اُترواؤ
ملیں نہ راہ میں تم کو کہیں سگاں بھٹکے
قتیلِ حسرتِ تکمیلِ فن ہوں، اور یاور
مرے خیال ہیں گم اور مرا بیاں بھٹکے
**************** |